تحریر: عرفان حیدر بشوی
حوزہ نیوز ایجنسی। انسانوں کی خدمت کرنا اسلامی اخلاق کا تقاضا ہے اور دینی تعلیمات میں اہل ایمان اور صالحین کی خدمت کی بڑی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ انبیاء و اولیاء الہی (ع) کی سیرت طیبہ سمیت آیات و روایات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ واجبات کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل کام خدا کے بندوں کی خدمت کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء و اولیاء علیہم السلام ہمیشہ خدا کے بندوں کی خدمت میں پیش پیش رہے ہیں۔ امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: خدا کی قسم مومن کی حاجت پوری کرنا اس کی مدد کرنا، ایک مہینہ روزہ رکھنے اور اعتکاف میں بیٹھنے سے بہتر اور افضل ہے۔
ائمہ معصومین علیہم السلام کی عملی زندگی اور ان کی سیرت سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ واجبات کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل کام مخلوق خدا کی خدمت اور ان کی مدد کرنا ہے- اس سلسلے میں امام علی علیہ السلام کی سیرت میں بہت سارے واقعات ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ (ع) مدینے میں یہودیوں کے خرما کے باغات کو پانی دیا اور جو مزدوری آپ کو ملی اسے غریبوں، فقیروں، مسکینوں، یتیموں اور اسیروں میں في سبيل اللہ تقسیم کی اسی طرح آپ نے خدا کی خشنودی حاصل کرنے کی غرض سے مدینہ کی مختلف جگہوں پر کنواں کھودا اور غریبوں کو ہدیہ کیا۔
معاویہ کہتا ہے: اگر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پاس دو کمرے ہوتے جن میں سے ایک سونے سے بھرا ہوا ہوتا اور دوسرا گھاس سے تو خدا کی قسم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پہلی فرصت میں ہی سونے کو غریبوں بانٹ دیتے -
اسی طرح امام حسن مجتبی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کئی بار اپنا پورا مال غریبوں میں تقسیم کیا امام حسین علیہ السلام نے جنگ صفين میں شھید ہونے والے مجاہدین کے بچوں کو کھانہ وغیرہ پہنچاتے تھے ان کی مدد کرتے تھے یہ حسن سلوک ہمیں امام زین العابدین،امام محمد باقر،امام جعفر صادق ،امام موسی کاظم علیہم السلام کی پاکیزہ زندگی میں بھی نظر آتا ہے جو ہماری عملی زندگی کے لیے نمونہ اور بڑا درس ہے۔ قارئین کرام امام موسی کاظم ع کی نگاہ میں لوگوں کی مدد کی اہمیت کے حوالے سے مختصر عرائض پیش خدمت ہیں۔
امام موسی کاظم علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں": روئے زمین پر اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جو لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن امن اور اطمئنان کی نعمت سے مالامال ہوں گے-قیامت کے دن جب سارے لوگ ڈرے سہمے ہوئے اور رو رہے ہوں گے، اس وقت کچھ لوگ سکون کے ساتھ ہوں گے یہ وہی لوگ ہوں گے جو دنیا میں زیادہ خدا کے بندوں کی خدمت کیا کرتے تھے ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرکے انہیں خوشی سے ہمکنار کرایا جائے- یہی لوگ قیامت کے دن اطمینان اور سکون کی زندگی گزارینگے۔
امام موسی کاظم علیہ السلام کے نزدیک لوگوں کی تین طرح سے مدد کی جاسکتی ہے:
1۔مالی مدد کرنا۔
2۔فکری مدد کرنا۔
3۔عزت اور وقار کی مدد کرنا۔
ضروری نہیں ہے ہمیشہ پیسوں کے ذریعے ہی لوگوں کی مدد کی جائے بلکہ کبھی آپ کسی کی عزت بچا کر بھی اس کی مدد کرسکتا ہے،اسی طرح وہ جوان جس کے عقیدے کو ٹھس پہنچی ہے، وہ وسوسہ اور شک کا شکار ہوا ہے تو آپ اس سے اس بیماری کو دور کرنے میں اس کی مدد کی جاسکتی ہے
امام موسی کاظم علیہ السلام اور لوگوں کی مالی مدد کرنے کا ایک نمونہ: مدینہ میں امام موسی کاظم علیہ السلام کے خرما کے بہت بڑے باغات تھے ایک دن گرمی میں آپ اپنے باغ میں کام کررہے تھے ایک شخص نے سوال کیا آپ کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟امام نے فرمایا: "کام کرنا انبیاء کرام اور اولیاء الہی کی سیرت ہے وہ بھی کام کیا کرتے تھے"یوں اس سے جو فائدہ آپ کو ملتا تھا اسے غریبوں میں تقسیم کرتے تھے۔
توجہ رہے اسلامی تعلیمات میں کام کرنا عار نہیں ہے بلکہ عین عبادت ہے۔
حاتم طائی کا بیٹا رسول خدا کے پاس آیا وہ اپنے باپ کے حوالے سے بہت زیادہ پریشان تھا چونکہ حاتم طائی کافر تھا اس کا بیٹا مسلمان- رسول اللہ نے فرمایا: تم اپنے والد کے حوالے سے زیادہ پریشان مت ہونا تمھارا باپ جہنم کی آگ میں نہیں جلے گا یعنی حاتم طائی کو اس کی سخاوت اور لوگوں کی مدد کرنے کی وجہ سے جہنم کی آگ نہیں جلا سکتی ہے۔
ایک شخص جس کا نام عیسی ابن محمود تھا امام موسی کاظم علیہ السلام کے پاس آیا اور عرض کی مولا اس سال میری ساری زراعت برباد ہوئی ہے کیڑے پڑگئیے ہیں میں بہت زیادہ مصیبت میں مبتلاء ہوا ہوں میری مدد کیجیے امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر تمھاری زراعت صحیح سالم تمھیں مل جاتی تو ٹوٹل کتنی آمدنی ہوسکتئ تھی؟ اس نے عرض کی شاید 120 دینار- امام ع نے اسے150 دینار اور دو اونٹ دیے اور اس کی اسطرح مالی مدد فرمائی۔
حماد ابن عیسی نامی شخص امام کاظم علیہ السلام کے پاس آیا اور عرض کی مولاء مجھے پانچ چیزوں کی ضرورت ہے آپ میرے لیے دعا کیجیے فرمایا: وہ پانچ چیزیں کونسی ہیں؟؟
عرض کیا :1۔بیوی نہیں ہے مجھے بیوی چاہیے۔
2۔ رہنے کے لیے گھر نہیں مجھے گھر چاہیے۔
3۔ اولاد کی تمنا ہے اولاد چاہئے۔
4۔ آگے پیچھے جانے کے لیے سواری نہیں ہے سواری چاہئے۔
5۔حج کرنے کی تمنا ہے۔
امام نے دعا کی اور فرمایا تم 50 بار حج پر جاوگے حماد کہتا ہے خدا کی قسم مجھے یہ سب مل گئے-
اپنے مال و دولت کے ذریعے لوگوں کی مدد کرو جو شادی کرنا چاہتے ہیں ان کی شادی کرواور جو بیروزگار ہیں انہیں روزگار فراہم کرو اس کا بہت بڑا ثواب ہے ائمہ معصومین اور انبیاء کرام کی سیرت بھی یہی ہے۔
حدیث بتاتی ہے: "جو اپنے مؤمن بھائی کی مشکلات دور کرنے کے لئے سعی و کوشش کرتا ہے گویا ایسا ہے جیسا صفاء و مروہ کے درمیان مشی کررہا ہے"
2۔امام موسی کاظم علیہ السلام کا لوگوں کی فکری مدد کرنا:
آپ علیہ السلام نے بہت سے منحرفین کی ہدایت فرمائی اور ان کا عقیدہ ٹھیک کیا- یونس ابن عبد الرحمن نامی شخص امام موسی کاظم علیہ السلام کے پاس آیا امام ع نے اسے ایک دعا تعلیم دی اور فرمایا ہمیشہ اس دعا کو پڑھا کرو: "اللہم لا تجعلنی من المعارین ولاتخرجنی من التقصیر"
خدا یا میرے دین کو عاریہ قرار دینے کے بجائے اصلی قرار دے- پہلہ جملہ آسان ہے دوسرا جملہ کیا کہنا چاہتا ہے؟؟کہتا ہے جتنی عبادت کرو اسے کم سمجھو اسے زیادہ مت سمجھو کتنا بڑا ہی آدمی کیوں نہ ہو، کتنا بڑا پروفیسر ہی کیوں نہ ہو، کتنا بڑا ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہو، کتنا بڑا تاجر ہی کیوں نہ ہو اپنے آپ کو کم سمجھو غرور نہ کرو، حسد نہ کرو اور تکبر نہ کرو اللہ مزید عطا کرے گا۔
3۔امام موسی کاظم ع کی سیرت میں دوسروں کی عزت بچا کر مدد کرنے کا نمونہ:
امام موسی کاظم علیہ السلام کے باغ میں بہت سارے مزدور کام کرنے آتے تھے ایک دن ایک مزدور درخت سے خرما اتارتے وقت کچھ حصے اپنے گھر کے صحن میں دیوارکے اوپر سے پھینکے دوسرے مزدور نے یہ دیکھا اور اس نے امام کے پاس اس کی شکایت کی امام ع نے اسے نصیحت کرتے ہوئےفرمایا تم جاؤ رات کو امام نے اس مزدور کو طلب کیا اور پوچھا آیا تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے؟ لباس کی ضرورت یے؟
عرض کی نہیں فرمایا پھر یہ غلط کام کیوں کیا عرض کی مولا عادت سے مجبور ہوں امام نے فرمایا غلط عادت ہے اسے چھوڑ دو امام نے اسے نصیحت کرکے فرمائی اس کی عزت بچائی اگر ھم ہوتے تو اس کی عزت کی دھجیاں اڑا چکے ہوتے لیکن امام نے اس کی عزت ،وقار بچا کر اس کی مدد فرمائی یہ چیزیں ہمارے لیے نمونہ عمل ہیں ہمیں چاہیے ہم ان کو اپنی زندگی میں عملی بنایں اس عظیم امام کو ہارون رشید نے متعدد بار ایک روایت کے مطابق 12 سال قید میں رکھا اور بہت ساری اذیتیں پہنچائیں آخر وجہ کیا تھی؟
چونکہ امام فرزند رسول تھے آپ اپنے زمانے میں سب سے عالم تھے، بابصیرت اور سب سے زیادہ متقی تھے۔ اسلامی حکومت کی تشکیل کے لیے آپ سب سے سزاوار تھے لہذا ہارون نے آپ علیہ السلام کو اپنے لیے بہت بڑی رکاوٹ سمجھا اور آپ کو مختلف زندانوں میں گھمایا پھریا گیا اور آخرکار سندی ابن شاھیک نامی یہودی جو خود یہودی تھا اور دشمن آل رسول تھا اس ملعون کے زندان کی کیفیت کچھ اسطرح تھی 25 سیڑھی نیچے زیرزمین میں اس کے بعد نیچے مزید ایک کنواں سا بنایا ہوا تھا امام کو اس میں رکھا گیا آپ علیہ السلام کی گردن میں طوق،پاوں اور ہاتھوں میں بیڑیاں تھیں اور بارش کی پانی کی وجہ سے کنویں میں پانی جمع تھا تاریک اور تنگ زندان تھا اسقدر اس عظیم امام پر مظالم ڈھائے گئے کہ امام علیہ السلام اپنی موت کی دعا مانگ رہے ہیں آخر کار اس امام کو مظلومانہ طریقے سے فیملی سے دور بغداد میں شہید کیا گیا تین دنوں تک آپ کا جنازہ بغداد کے پل پر رکھا گیا تین دن بعد چارمزدوروں نے آپ کے جنازے کو کاندھے دیئے اور آہ و بکاء اور سسکیوں کے ساتھ کاظمین میں سپرد خاک کیا گیا۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔